محکمہ صحت بلوچستان کے مطابق بلوچستان میں اب تک9625افراد کے ٹیسٹ کئے گئے ہیں جن میں 4016افراد مشتبہ ہیں جبکہ مجموعی طورپر3694افراد کے زرلٹس آئے ہیں جن میں 3474افراد کے ٹیسٹ منفی جبکہ 220افراد کے ٹیسٹ مثبت آئے ہیں جبکہ 100ٹیسٹ آنا باقی ہیں ،محکمہ صحت کے مطابق گزشتہ روز شیخ زاہد ہسپتال میں زیر علاج 6مریضوں کے ٹیسٹ منفی آنے پر ڈسچار کردیاگیاجس کے بعد بلوچستان میں متاثرہ افراد میں سے اب تک95افراد صحت یاب ہوگئے ہیں جبکہ ایک شخص وفات پا گیاہے ۔صوبے میں کورونا وائرس سے 5اضلاع متاثر ہیں ۔اس وقت مختلف قرنطینہ سینٹرز میں موجود افراد کی تعداد327ہیں جن میں تفتان میں 235،دالبندین میں 16،پی سی ایس آئی آر میں 2،خضدار میں 27،ژوب میں 23،ہرنائی میں 5،گوادر میں 3،آر ڈی اے میں 18افراد موجود ہیں ،محکمہ صحت کے مطابق 220افراد میں سے 72لوکل ہیں جن میں کوئٹہ سے 53،چاغی سے11،لورالائی سے 6،خضدار اور ہرنائی سے ایک ،ایک مریض ہیں ،قرنطینہ سینٹر میں موجود19جن میں 12مقامی اور7ایرانی ڈرائیور شامل تھے کو ڈسچارج کردیاگیا جبکہ 7ایرانی ڈرائیوروں کو ایرانی حکومت کے حوالے کردیاگیا اس کے علاوہ 23افراد کو بھی گھروں کو بھیج دیاگیاہے ۔محکمہ صحت کے مطابق اضلاع کی سطح پر اب تک 1733افراد کی اسکریننگ کی گئی ہے جن میں کوئٹہ میں 154، 76افرادکے سیمپلز لئے گئے ہیں ۔
کورونا وائرس سے متاثرہ زیادہ تر افراد معمولی سے درمیانے درجے کی علامات کے ساتھ ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ تاہم متاثرہ افراد کی ایک مخصوص تعداد ایسی ہے جن میں بیماری شدت اختیار کر جاتی ہے اور مریض ہلاک ہو جاتا ہے۔
امریکہ میں مستند اداروں نے ڈاکٹروں کو کووِڈ۔19 کے ایسے شدید بیمار یا جان لیوا صورتحال کا سامنا کرنے والے افراد کے علاج کے لیے ایک ایسی تحقیقاتی نئی دوا تک رسائی کی اجازت دی ہے جو بنیادی طور پر کورونا ہی کے صحت یاب ہونے والے مریضوں کے خون سے حاصل کردہ پلازمہ یا سیال ہے۔
اسے خون کا روبصحت سیال یا کونویلیسینٹ پلازمہ کہا جاتا ہے۔ کورونا سے ہونے والی معتدی بیماری کووِڈ۔19 کی صورت میں معروف امریکی ادارے ایف ڈی اے نے اسے
۔19 کونویلیسینٹ پلازمہ کا نام دیا
۔19 کونویلیسینٹ پلازمہ کا نام دیا
ایف ڈے اے یعنی دی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے رواں ماہ کی 24 تاریخ کو ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں ڈاکٹروں کو کورونا کے شدید علیل یا زندگی اور موت کی جنگ لڑنے والے مریضوں کے لیے کووِڈ۔19 کونویلیسینٹ پلازمہ کے استعمال کی اجازت دی۔ تاہم ہر انفرادی مریض میں استعمال سے قبل پیشگی اجازت لینا ضروری قرار دیا ہے۔
ایف ڈی اے کے مطابق یہ ایک تحقیقاتی طریقہ علاج ہے اور اس تک رسائی کی مشروط اجازت امریکہ میں تیزی سے بڑھتے کورونا وائرس اور اس سے پیدا ہونے والی ہنگامی طبی صورتحال کے پیشِ نظر دی گئی ہے۔
پاکستان میں بھی طبی ماہرین اس طریقہ علاج کے استعمال کی تجویز حکومت کو دے چکے ہیں۔ ان میں کراچی میں واقع نیشنل انسٹیٹیوٹ آف بلڈ ڈیذیذز کے ڈین اور امراض خون کے ماہر ڈاکٹر طاہر شمسی بھی شامل ہیں جو حال ہی میں اس تجویز کو سامنے لائے تھے۔
ان کا استدلال ہے کہ چین میں ڈاکٹروں نے کورونا کے مریضوں پر اس طریقہ کار کا استعمال کیا ہے اور اس کے انتہائی مثبت نتائج سامنے آئے ہیں جنھیں انھوں نے دنیا بھر کے ڈاکٹروں کے لیے شائع بھی کیا ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہر شمسی نے بتایا کہ 'اس طریقہ علاج اور اس کے استعمال کے حوالے سے ایک نمونہ حکومت کے پاس جمع کروایا جا چکا ہے، انھوں نے دیکھ لیا ہے اور انھوں نے یہ کہا ہے کہ وہ یہ کریں گے۔'
ان کا کہنا تھا کہ صوبہ پنجاب، بلوچستان اور وفاقی حکومتوں کو یہ نمونے موصول ہو چکے ہیں۔
تاہم پاکستان سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ٹاسک فورس کے چیئرمین ڈاکٹر عطاالرحمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 'اس قسم کے طریقہ علاج میں صلاحیت اور امکانات بہت ہیں تاہم اس کو اس وقت استعمال کیا جا سکتا ہے یا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہو گا جب تک یہ کلینیکل ٹرائل سے نہیں گزر جاتا۔'
ماہر امراض خون ڈاکٹر طاہر شمسی پُر اعتماد ہیں کہ اس طریقہ کار کو فوری استعمال کیا جا سکتا ہے اور اگر حکومتی رضامندی ہو تو وہ اس کا فوری بندوبست کر سکتے ہیں۔
کونویلیسینٹ پلازمہ کے ذریعے علاج کیا کیسے جاتا ہے؟ کیا یہ کوئی نئی چیز ہے؟ ایف ڈی اے اس کی مشروط اجازت کیوں دے رہا ہے اور اگر اس میں اس قدر صلاحیت ہے تو اس کو تحقیقاتی کیوں کہا جا رہا ہے؟ ڈاکٹر طاہر شمسی اس کی وضاحت کرتے ہیں۔
کونویلیسینٹ پلازمہ کیا ہے؟
ڈاکٹر طاہر شمسی نے بتایا کہ جب بھی کوئی جراثیم پہلی دفعہ انسانی جسم ہر حملہ آور ہوتا ہے تو اس کا قوت مدافعت کا نظام حرکت میں آتا ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک اینٹی باڈی بنتی ہے جسے امیونو گلابلن یا آئی جی ایم کہا جاتا ہے۔
اینٹی باڈی خون کے اندر بننے والا ایسا مواد یا پروٹین ہے جو جراثیم کو تلف کرتا ہے۔ یہ امیونوگلوبلن کچھ ہفتتے تک جسم میں رہتی ہے اور اس کے بعد بکھر جاتی ہے۔ دوسری مرتبہ جسم کو اسی جراثیم کے حملے کا سامنا ہوتا ہے تو اس مرتبہ زیادہ تیزی سے اس میں ایک اینٹی باڈی بنتی ہے جسے آئی جی جی کہا جاتا ہے۔
کووِڈ۔19 میں اس کا استعمال کیسے ہو گا؟
ڈاکٹر طاہر شمسی کا کہنا تھا کہ 'کورونا وائرس کی بات کریں تو اس میں 85 فیصد سے زیادہ مریض معمولی نزلہ زکام کے بعد ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اینٹی باڈی آئی جی ایم وائرس کا مقابلہ کر کے اسے ختم کر دیتی ہے کیونکہ وہ اس جراثیم کو پہچان چکی ہوتی ہے اور وہ جلدی اثر کرتی ہے۔'
کونویلیسینٹ پلازمہ اسی اینٹی باڈی پر مشتمل ہوتا ہے۔
کووِڈ۔19 کے صحت یاب ہونے والے ایسے ہی مریض کے خون سے اسے نکال کر ایسے مریض کے خون میں داخل کیا جاتا ہے جو شدید علیل ہو، اسے نمونیا ہو یا پھر اسے متعدد اندرونی اعضا کے فیل ہو جانے کا خدشہ ہو۔
'یہ اینٹی باڈی اس کے جسم میں جا کر ایسے ہی جراثیم کو ختم کرتی ہے جیسے اس نے صحت یاب ہو جانے والے مریض کے جسم میں کیا تھا۔' کورونا وائرس کی مطابقت سے ایف ڈی اے اس کو کووِڈ۔19 کونویلیسینٹ پلازمہ کا نام دیتا ہے۔
کیا یہ نئی دریافت ہے؟
ڈاکٹر طاہر شمسی کے مطابق یہ طریقہ کار نیا نہیں ہے بلکہ اس وقت سے مختلف قسم کے ایسے وبائی امراض کے علاج کے لیے استعمال ہو رہا ہے جب ویکسین وغیرہ نہیں بنی تھی۔
کورونا وائرس بھی انسان کے علم میں نہیں تھا اس لیے اس کی کوئی ویکسین تاحال تیار نہیں ہوئی اور ہونے میں وقت لگے گا۔
ڈاکٹر طاہر شمسی کے مطابق ایسی صورتحال میں کووِڈ۔19 کونویلیسینٹ پلازمہ کی مدد سے انتہائی علیل مریضوں کا علاج ہی موزوں طریقہ ہے۔ ایسے مریضوں کے تعداد بھی لگ بھگ دس فیصد کی قریب ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ صحت یاب ہونے والے مریضوں کے خون سے پلازمہ کو الگ کرنے کا عمل مقامی طور پر پاکستان میں کیا جا سکتا ہے۔ 'ایک دو مریضوں میں تو ہم فوراً کر سکتے ہیں تاہم زیادہ مقدار درکار ہو تو دو ہفتے کی اندر اس کے نتظامات مکمل کیے جا سکتے ہیں۔'
ایف ڈی اے اس کو تحقیقاتی کیوں قرار دیتا ہے؟
ایف ڈی اے کے حالیہ اعلامیے کے مطابق ایسا کونویلیسینٹ پلازمہ جو کورونا وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز رکھتا ہو کووِڈ۔19 جیسی متعدی مرض کے خلاف موثر ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی سانس کے متعدی امراض پر کونویلیسینٹ پلازمہ کی استعمال پر تحقیق کی گئی ہے، جن میں سنہ 2009-2010 میں ایچ1این1، سنہ 2003 میں سارس اور سنہ 2012 میں مرس کی وبائیں شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گو کہ نتائج حوصلہ افزا تھے مگر تحقیق کی گئی ہر ایک مرض پر کونویلیسینٹ پلازمہ کی استعمال کی افادیت ظاہر نہیں ہوئی۔
'اس لیے یہ ضروری ہے کہ معمول کے طور پر کووِڈ۔19 کے مریضوں کو کونویلیسینٹ پلازمہ لگانے سے پہلے کلینیکل ٹرائلز کے ذریعے اس بات کا تعین کر لیا جائے کہ یہ محفوظ اور موثر ہے۔'
پاکستان سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ٹاسک فورس کے چیئرمین ڈاکٹر عطا الرحمان بھی اسی تجویز کے حامی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 'ڈاکٹر طاہر شمسی کو چاہیے کہ وہ پہلے بین الاقوامی اصولوں کے مطابق کنٹرولڈ ماحول کے اندر اس کے کلینیکل ٹرائلز کر لیں۔'
ایف ڈی اے نے پلازمہ کے استعمال کی اجازت کیسے دی؟
تاہم ایف ڈی اے نے امریکہ میں کووِڈ۔19 کے وبا کے تناظر میں پیدا ہونے والی ایمرجنسی کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹروں کو کووِڈ۔19 کونویلیسینٹ پلازمہ تک رسائی دے دی ہے جبکہ کلینیکل ٹرائلز جاری ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کلینیکل ٹرائلز مریضوں کے لیے کونویلیسینٹ پلازمہ تک رسائی کا ایک ذریعہ ہو سکتے ہیں تاہم ہو سکتا ہے کہ بوقت ضرورت یہ تمام مریضوں کے لیے میسر نہ ہو۔
ان حالات میں ایف ڈی اے مریضوں کو کووِڈ۔19 کونویلیسینٹ پلازمہ تک رسائی کی سہولت دے رہا ہے جو کہ اس عمل کے ذریعے کیا جائے گا جس میں ایک انفرادی مریض کو لائسنس یافتہ فزیشن ایف ڈی اے کی منظوری کے ساتھ یہ پلازمہ دے گا۔
امریکہ میں اس کا استعمال کن چیزوں سے مشروط ہے؟
اس کے استعمال کے لیے ایف ڈی اے نے جو شرائط رکھی ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ کووِڈ۔19 کونویلیسینٹ پلازمہ مکمل طور پر مصدقہ طریقے سے صحت یاب ہونے والے اس مریض سے حاصل کیا جائے گا جو خون عطیہ کرنے کا اہل ہو گا۔
یہ انہی مریضوں کو لگایا جائے گا جن میں کووِڈ۔19 کی علامات انتہائی شدید ہوں یا ان کی زندگی کو فوری خطرہ لاحق ہو۔ پلازمہ کے استعمال سے پہلے مریض کی رضامندی لینا ضروری ہو گا۔
ہر انفرادی مریض میں کووِڈ۔19 کونویلیسینٹ پلازمہ کے استعمال سے قبل ڈاکٹر کے لیے عام حالات میں ای میل جبکہ ایمرجنسی کی صورت میں زبانی منظوری حاصل کرنا ہوگی۔
ایف ڈی اے کے اعلامیے کے مطابق وہ ملک میں صحت کے دیگر اداروں کے ساتھ مل کر ایسا طریقہ کار وضح کر رہا ہے جس کے ذریعے ایک سے زیادہ محقق (ڈاکٹر) کووِڈ۔19 کونویلیسینٹ پلازمہ کے حصول اور استعمال کے لیے باہم رابطہ کر سکیں گے۔